منی کی مہندی چوڑیاں اور باپ کے آنسوں

  (اللہ بخش کی لاڈلی منی) آج پھر وہ گھر خالی ہاتھ لوٹا تھا ہر بار کی طرح ۔اور وہ جانتا تھا کہ آج پھر مُنی جو سب گھر والوں کی لاڈلی تھی اُس کا دروازے پہ انتظار کر رہی ہوگی لاڈلی کیوں نہ ہوتی بڑی منتوں کے بعد اللہ بخش کے گھر پہلی اُولاد کی پیدائش ہوئی تھی وہ بھی اتنے سالوں بعد۔ اب بشیراں اور اللہ بخش کی تو ساری دنیا جیسے یہ مُنی ہی تھی۔ وہ دونوں میاں بیوی مُنی سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے ۔ جب بھی کہیں خوشی کا موقع ملتا تو بشیراں چپکے سے گاؤں کے اُس گھر میں پہنچ جاتی ۔ماسی بشیراں کو دیکھ کر جیسے سب کے چہرے پہ رونق آجاتی ۔آتی بھی کیوں نہ ماسی بشیراں اپنی پیاری آواز میں آنے والے مہمان (بچے) کی خوشی میں گیت گاتی اور ساتھ ساتھ تھوڑا ناچتی بھی۔ اور جب جانے لگتی تو وہ گھر والے خوشی میں ماسی بشیراں کو کچھ پیسے اور موتی چور کے لڈوتھما دیتے۔ یوں ماسی بشیراں اپنی مُنی کے لیے لڈو کی صورت میں انمول تحفہ لاتی۔ بس وہ ایک ہی راستہ تھا کہ وہ میاں بیوی اپنی مُنی کو خوشی دیتےتھے۔۔ خیر بچارا اللہ بخش شاہدرہ کے ریلوے اسٹیشن پہ ایک معمولی قُلی تھا۔ جو صبح سے شام تک لوگوں کا وزن اُٹھا تا ۔۔ اور بدلے میں بس اتنا ہی کماپاتا کہ اُسکے گھر والے 2 ٹائم کا کھانا کھا سکیں۔ لیکن اس کمائی سے گھر کہاں چلتا۔ اور ویسے بھی برق رفتار اس دور میں اب کون ریلوے کا سفر کرتا ہے۔ اس لیے بچارے اللہ بخش کی کمائی بھی اُسی کی طرح کمزار اور ناتواں ہوچکی تھی۔ وہ بچارا اکثر خواب دیکھتا کہ کیسے وہ اپنی لاڈو رانی کی شادی دھوم دھام سے کرائے گا۔ وہ اکثر سوچتا کہ کیسے وہ اپنی لاڈو رانی کو کسی اچھے سے مدرسے میں بھیجے گا۔ جہاں اسکی دھی رانی اچھی دینی تعلیم حاصل کرے گی ۔ خیر وی صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا۔ ایک دن تو مُنی نے جو اب 5 سال کی تھی سفارش کی کے واپسی پہ آج اُس کے لیے وہ پراندہ اور چوڑیاں لائے اور ایک مہندی کی پڑیا بھی کیوں کہ کل عید کا دن تھا۔ بچارا اللہ بخش پورا دن ریلوے اسٹیشن پہ مارا مارا پھرتا رہا پر اُس نے اتنے ہی پیسے کمائے کہ وہ گھر کے لیے راشن لے پاتا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنمبھالا اور اسٹیشن ماسٹر کے آفس چلا گیا۔ ڈرتے ہوئے اور کپکپاتے ہوئے اُس نے انتہائی دھیمے سے اپنا نام بتایا اور درخواست کی کہ سرکار: کل عید ہے اور میری بچی نے چوڑیاں اور مہندی کی سفارش کی ہے۔ آپ اگر مہربانی فرما کر تھوڑے پیسے اُدھاردے دیں تو میں اُس کے لیے یہ چیزیں خرید لوں گا جس سے میری بچی ٓخوش ہوجائے گی اور میں آپ کو بہت جلد لوٹادوںگا۔ اُسکی یہ بات جیسے اسٹیش ماسٹر چوہدری نواز کے اوپر بجلی بن کے گری وہ پہلے ہی انتہائی غصیلہ انسان تھا۔ کھڑا ہوا کرسی سےاور انتیائی اونچے لہجے میں بولا: میں یہاں تمہارے بچوں کی فرمائشیں پوری کرنےکے لیے نہیں بیٹھا ہوا۔ نہ ہی کسی کے باپ کا ملازم ہوں کہ جس کا دل کرے منہ اٹھا کہ میری کمرے میں آجائے ۔۔ اگر بچے پال نہین سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو۔ بچارا اللہ بخش کیا کرتا ۔۔۔۔ معاف کردو صاحب جی: کہہ کر مرجھائی آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں کے ساتھ واپس مڑا۔۔ اور پورے راستے روتا ہُوا گھر پہنچا۔۔۔ گھر کے دروازے پہ آکر دیوار سے سر لگائے رونے لگ گیا۔۔ اندر جاتا بھی تو کیسے جاتا معصوم مُنی کی چوڑیاں مہندی اور پراندہ کہاں سے لاتا- لیکن اُس کا یہ درد کیسے مُنی سے چھپ سکتا تھا۔ " بیٹیاں پرائی ضرور ہوتی پر باپ کے درد کی برابر کی ساجھے دار ہوتی" مُنی نے باپ کے رونے کی آواز سُن لی تھی ۔۔بھاگ کے باہر آئی اور آکر لپٹ گئی۔۔۔ اللہ بخش چاہ کہ بھی اپنے آنسو "منی سے چھپا نہ پایا "اور بس یہی الفاظ تھے "پتر معاف کر دے۔۔۔ تیری چوڑیاں نہ لے پایا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اُسکی ہچکی بندھ گئی۔۔۔۔ مُنی کی آنکھیں بھی پسیج چکی تھی اسلیے نہیں کہ اُسکو چوڑیاں اور مہندی کی ضرورت تھی بلکہ اسلیے کہ باپو سے وہ بہت پیار کرتی تھی اور وہی رو رہا تھا اُسکی خوشیوں کے لیے۔۔۔ اللہ بخش نے آنسو ہاتھ سے صاف کیے اور بولا: پتر میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں پر کیا کروں کبھی تو لگتا کہ اللہ میاں نے سار وزن ہم پہ ہی ڈال دیا ہے ۔۔۔شائد قلی ہوں نہ۔۔۔۔ لوگوں کا وزن بھی اٹھانا پڑتا۔۔۔ اور بے بسی کا بھی ۔۔۔۔۔ مُنی نے اپنے دوپٹہ کے پلو سے باپو کے آنسو صاف کیے اور بولی: نہ باپو نہ ایسا نہ بولو: اللہ میاں ہم سے بہت پیار کرتے ورنہ کہاں مجھے اتنے پیارے باپو اور آپ کو اتنی پیاری سی گڑیا دیتے ۔۔۔ اور باپو ہر عید پہ تو لگاتی میں مہندی اور پہنتی چوڑیاں اس پہ نہ سہی ۔۔۔ پر مییرے پاس اتنی اچھی ماں اور باپو تو ہے نہ۔۔ بچاری بشیراں ماسی دروازے کے پیچے کھڑی بے بسی کی تصویربنی ہوئی تھی اور وہ بھی خاموش ہی تھی ۔۔ مُنی نے باپو کا ہاتھ پکڑا اور باپو کو اندر لے گئی۔۔۔۔۔۔ اگلے دن علی الصبح ۔۔۔ دروازے کی کُنڈی کھڑکی۔۔۔ اللہ بخش نے دروازہ کھولا تو اسٹیشن ماسٹر دروازے پہ تھے۔۔۔ اُسکے ہاتھ میں ایک لفافہ اور ایک شاپر تھا جس میں مہندی ۔۔چوڑیاں ۔۔پراندہ اور بہت سی چیزیں تھی۔۔۔ اور وہ دروازہ کھلتے ہی اللہ بخش سے لپٹ گیا۔۔۔ اور رونے لگ گیا۔۔۔ اور بس اتنا ہی کہہ پایا معاف کردینا اللہ بخش ۔۔۔معاف کردینا اُس نےلفافہ اور شاپر اللہ بخش کو تھمایا اور اُلٹے پاؤں لوٹ گیا۔۔۔ اللہ بخش نے گھر آکر شاپر کھولا تو مُنی کی عید کا سامان تھا ااور اللہ بخش کی آنکھوں میں جیسے خوشیوں کے آنسووں کسی آبشار پُھوٹ پڑی تھی۔۔۔ اور جب اُس نے لفافہ کھولا تو اُس میں 50 ہزار کی نقد رقم تھی اور ایک خط تھا۔۔۔ "جس میں لکھا تھا "" اللہ بخش میں نے جو کیا اُس پہ شاید میرا رب بھی مجھ سے ناراض ہوگیا۔۔ میں نے خواب دیکھا کہ میرا گھر سیلاب میں بہہ گیا۔۔ میرے بچے پانی میں بہہ جارہے اور کہیں غیبی سی آواز آرہی کہ۔۔ "کیوں چوہدری نواز: انسان سے رب بن گیا تُو۔۔۔ بھول گیا تُو۔۔۔ تیرا اور اللہ بخش کا رب ایک ہی ہے۔۔۔دیکھ چوہدری یہ سیلاب نہیں اللہ بخش کے آنسو ہیں ۔۔۔۔۔

   

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

مزاحیہ کہانی

ایک بوڑھے بزرگ کی کہانی